Why is the world so divided?
دنیا انتی زیادہ تقسیم کیوں ہے؟
سوال: ناجانے کیوں مجھے پورا یقین نہیں ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ چیزیں اس کا زیادہ سے زیادہ حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سیاست ہے٬ جس نے ہمیں تقسیم کر دیا ہے۔؟
جواب: آج ہم دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں ہمیں یہ دیکھ کر زبردست پریشانی ہوگی کہ طویل عرصے سے پُر اعتماد سیاسی نظاموں پر اب بلکل بھی اعتماد نہیں کیا جاتا۔ وہ تمام خبر رساں ایجنسیاں جو بہت قابل احترام سمجھی جاتی تھیں اب ان کو ’’جعلی خبر رساں‘‘ ایجنسیوں کا نام دیا جا رہا ہے۔ دنیا کی تفریحی صنعت یکے بعد دیگرے اسکینڈ لز سے بُری طرح ہل کر رہ گئی ہے٬ جس کے نتیجے میں اُن کے لئے بڑی ذلت کا باعث بن چکی ہے۔
مگر یہ وہیں ختم نہیں ہوتا۔ بہت سے عادی افراد نے دنیا کی مشکلات سے ایک قسم کی راہِ فرار حاصل کرنے کیلئے اپنے پسندیدہ کھیلوں اور کھلاڑیوں اور جنہوں نے انہیں مختلف تنازعات میں شامل کیا تھا کا رخ کیا۔
ویسی ہی اس کھلبلی میں مذہب بھی گھیرا جا چکا تھا٬ جیسا کہ دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک نے اپنی ساکھ کیلئے بار بار اس طرح تربیت دی۔ جو اس کے نام میں دہشتگردی کے عمل میں مصروف ہیں۔
اور افسوس کے طور پر٬ دنیا کی غیر معمولی تقسیم اس لئے نہیں ہوئی ہے لیکن ہم عملی طور پر ہر جگہ اور اپنے خاندانوں میں اکثر اس کو دیکھتے ہیں۔
کیا ہو رہا ہے؟ شاید ہو سکتا ہے اس سے آپکو حیرت ہو٬ مگر اس سوال کا جواب بائبل میں ملتا ہے۔ بائبل اس وقت کے بارے میں بتاتی ہے٬ جب دنیا اس طرح سے تقسیم ہو جائے گی جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ قیامت کے دن اس قسم کی تقسیم کا دن آتا ہے۔
جزقی ایل 38 باب 21- 22٬ آیات:
’’اور میں اپنے سب پہاڑوں سے اُس پر تلوار طلب کروں گا خداوند خدا فرماتا ہے اور ہر ایک انسان کی تلوار اُس کے بھائی پر چلے گی اور میں وبا بھیج کر اور خون ریزی کر کے اُسے سزا دُوں گا اور اُس پر اور اُس کے لشکروں پر اور اُن بہت سے لوگوں پر جو اُس کے ساتھ ہیں شدت کا مینہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤ ں گا۔‘‘
زکریاہ 14 باب 13 آیت:
’’اور اُس روز خداوند کی طرف سے اُن کے درمیاں بڑی ہل چل ہوگی اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اُٹھائے گا۔‘‘
سوال: یہ عدالت کا دن؟ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کا دن تقریباََ آ پہنچا ہے؟
جواب: نہیں٬ دراصل٬ بائبل نے یہ ظاہر کیا ہے کہ عدالت کا دن پہلے سے آ چکا ہے۔ شاید آپکو یاد ہو 21 مئی 2011ء کی تاریخ کے بارے میں کئی سال پہلے دنیا کو ظاہر کیا جا چکا ہے؟ بائبل اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس کی منادی صحیح تھی۔ جسکا مطلب ہے کہ خدا دنیا کی اُس تاریخ سے لے کر آج تک عدالت کر رہا ہے۔ اور بائبل یہ بھی اشارہ دیتی ہے کہ یہ عدالت کا عرصہ کئی اور سالوں ممکن ہے۔ 2033 ق م تک چلتا رہے گا۔
سوال: کیا؟ آپ سنجیدہ نہیں رہ سکتے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کیونکہ دنیا اس وقت تقسیم ہو گئی ہے جسکا مطلب یہ ہوا کہ اسکی عدالت کا دن ہے؟
جواب: یہ دوسرا راستہ ہے۔ یہ عدالت کا دن نہیں ہے کیونکہ دنیا تقسیم ہوئی ہے؛ مگر دنیا کی تقسیم اس لیئے ہوئی کیونکہ یہ عدالت کا دن ہے۔ اور خدا کی عدالت شیطان کی بادشاھت کی تقسیم کہلاتا ہے۔۔۔ یہی٬ اس دنیا کی تقسیم ہے۔
متی 12 باب 25 آیت:
’’اُس نے اُن کے خیالوں کو جان کر اُن سے کہا جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے۔ وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی وہ قائم نہ رہے گا۔‘‘
یہ بھی:
مرقس 3 باب 24-26 آیات:
’’اور اگر کسی سلطنت میں پھوٹ پڑ جائے تو وہ سلطنت قائم نہیں رہ سکتی۔ اور اگر کسی گھر میں پھوٹ پڑ جائے تو وہ گھر قائم نہ رہ سکے گا۔ اور اگر شیطان اپنا ہی مخالف ہو کر اپنے میں پھوٹ ڈ الے تو وہ قائم نہیں رہ سکتا بلکہ اُس کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘
اس فقرے پر غور کریں ’’قائم نہ رہے گا‘‘ بار بار ان آیات میں استعمال کیا گیا ہے۔ خدا٬ جس نے بائبل لکھی ہے٬ اپنے لفظوں کا انتخاب بڑے باضابطگی سے کرتا ہے٬ ہم ایسی ہی زبان کا استعمال دوسری کئی جگہوں پر دیکھتے ہیں۔
مکاشفہ 6 باب 17 آیت:
’’کیونکہ اُن کے غضب کا روزِ عظیم آ پہنچا۔ اب کون ٹھہر سکتا ہے۔‘‘
زبُور 1-5 آیت:
’’اس لیئے شریر عدالت میں قائم نہ رہیں گے نہ خطا کار صادِقوں کی جماعت میں۔‘‘
شیطان کی سلطنت٬ جو تمام غیر نجات یافتہ لوگوں پر قائم ہوگی ٬ وہی عدالت کے دن گر جائے گی۔ شیطان کے گھر کی تقسیم اُن کو عدالت کے دن کھڑے رہنے کی اجازت نہ دے گی۔
سوال: آپ نے کہا یہ دنیا شیطان کی بادشاھت ہے؟ دیکھو میں مانتا ہوں کہ دنیا میں بہت سی بُرائیاں ہیں؟ مگر میں اتنی دور نہیں جاتا کہ کہہ سکوں کہ یہ دنیا ’’شیطان کی بادشاھت‘‘ ہے؟
جواب: بدقسمتی سے٬ بائبل اسے اسی طریقے سے بیان کرتی ہے۔ باغ عدن میں انسان ذات کو دھوکہ دے کر شیطان نے اپنے لیئے اور گناھ کے لیئے انسانی غلامی کا حق جیت لیا تھا۔ اور غیر نجات یافتہ انسان ذات پر حکومت کرنے کا حق جیتنے کی وجہ سے وہ یسوع کو اس دنیا کی بادشاھت کی پیشکش کرنے کے قابل ہوگیا۔
لوقا 4 باب 5-6 آیات:
’’اور ابلیس نے اُس اُنچے پر لے جاکر دنیا کی سب سلطنتیں پل بھر میں دکھائیں٬ اور اُس سے کہا کہ یہ سارا اختیار اور اُن کی شان و شوکت میں تجھے دے دوں گا کیونکہ یہ میرے سُپرد ہے اور جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں۔‘‘
اصلیت میں شیطان مسیح کو دنیا کی بادشاھت کی پیشکش کر سکتا تھا کیونکہ وہ اُن پر باغِ عدن سے لے کر حکومت کرتا رہا تھا۔
سوال: مجھے پتہ نہیں ہے٬ شیطان دنیا پر حکومت کرتا ہے یہ خیال میرے لیئے بڑا عجیب ہے؟
جواب: ٹھیک ہے٬ یہ سچ بات ہے٬ اس وقت وہ دنیا پر حکومت نہیں کر رہا۔ جب سے خداوند یسوع مسیح (21 مئی 2011ء میں منصف بن کر آیا ہے٬ اس نے شیطان کی بادشاھت کا تختہ پلٹ دیا ہے۔ خداوند یسوع اس طویل عرصے میں عدالت کر رہا ہے۔ بائبل ہمیں بابَل کے بادشاہ کی بادشاھت کے گرنے کا ایک بڑی سچی مثال دیتی ہے۔ سب پہلے ہم یہ جانتے ہیں کہ بابل کا بادشاہ شیطان کی ایک شکل یا نمائندگی ہے۔
یسعیاہ 14- 4 آیت:
’’تب تو شاہ بابل کے خلاف یہ مثل لائے گا اور کہے گا کہ ظالم کیسا نابود ہو گیا ہے اور غاصب کیسا نیست ہوا۔‘‘
یسعیاہ 14 باب٬ 12-14 آیات:
’’اے صبح کے روشن ستارے تو کیونکر آسمان پر سے گر پڑا اے قوموں کو پست کرنے والے تو کیونکر زمیں پر پٹکا گیا۔ تو اپنے دل میں کہتا تھا میں آسمان پر چڑھ جاؤ ں گا میں اپنے تخت کو خدا کے ستاروں سے بھی اُونچا کروں گا اور میں شمالی اطراف میں جماعت کے پہاڑ پر بیٹھوں گا۔ میں بادلوں سے بھی اوپر چڑھ جاؤں گا۔ میں خدا تعالیٰ کی مانند ہوں گا٬ لیکن تو پاتال میں گڑھے کی تہہ میں اُتارا جائے گا۔‘‘
دنیا گر پڑی ہے! گر پڑی ہے!
وہ شاہ بابل اور اُس کی قوم تھی جنہوں نے یہوداہ کی سر زمین کو برباد کیا اور بہت سے یہودیوں کو غلام بنا کر بابل لے گئے۔ سَتر سال کے ایک بڑے خوفناک عرصے کے بعد (جس میں ایک بڑی مصیبت نے جگہ لی) بابل کے میدانوں کو مادیوں اور فارسیوں نے فتح کیا۔ اُس وقت بابل کی پزیری شیطان کی پزیری اور دنیا کے اختتام کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ بائبل بابل کی پزیری کو واضح بیان کرتی ہے۔
یرمیاہ 51 باب 7-8 آیات:
’’بابل خداوند کے ہاتھ میں سونے کا پیالہ تھا جس نے ساری دنیا کو متوالا کیا۔ قوموں نے اُس کی مے پی اس لیئے وہ دیوانہ ہیں۔ بابل یکایک گر گیا اور غارت ہو اُس پر واویلا کرو اُس کے زخم کیلئے بلسان لوشاید وہ شفا پائے۔‘‘
یسعیاہ 21 باب 9 آیت:
’’اور دیکھو سپاہیوں کے غول اور اُن کے سوار دو دو کر کے آتے ہیں۔ پھر اُس نے یوں کہا کہ بابل گر پڑا گِر پڑا اور اُس کے معبودوں کی سب تراشی ہوئی مورتیں بلکل ٹوٹی پڑی ہیں۔‘‘
مُکاشفہ 14 باب 8 آیت:
پھر اُس کے بعد ایک اور دوسرا فریشتہ یہ کہتا ہوا آیا کہ گر پڑا۔ وہ بڑا شہر بابل گر پڑا جس نے اپنی حرامکاری کی غضب ناک مے تمام قوموں کو پلائی۔‘‘
مکاشفہ کے 14 باب کے اس بیان پر مبنی٬ ہم دیکھتے ہیں کہ اصلاحی زبان٬ دنیا کے گرنے کو اس کی آخری عدالت کے وقت میں ظاہر کرتی ہے۔
مکاشفہ 14 باب 10 آیت:
’’وہ خدا کے قہر کی اُس خالص مے کو پئے گا جو اُس کے غضب کے پیالے میں بھری گئی ہے اور پاک فرشتوں کے سامنے اور برّہ کے سامنے آگ اور گندھک کے عذاب میں مُبتلا ہوگا۔‘‘
ہم بابل کے گِرنے کے بارے میں 18 باب میں بھی پڑھتے ہیں۔
مکاشفہ 18 باب 2 آیت:
’’اُس نے بڑی آواز سے چلا کر کہا کہ گر پڑا- بڑا شہر بابل گر پڑا اور شیاطین کا مسکن اور ہرنا پاک روح کا اڈ ا اور ہر ناپاک روح اور پرندہ کا اڈ ا ہوگیا۔‘‘
جہاں بھی ہم موڑ کر دیکھتے ہیں ’’بابل گر پڑا٬ گر پڑا‘‘ ہم اس کا یہ مطلب نکال سکتے ہیں٬ ’’کہ دنیا گر پڑی٬ گر پڑی‘‘ یا عدالت کا دن اب یہاں ہے۔ عدالت کا دن یہاں ہے۔
اس عجیب قابل ذکر آیت میں٬ خداوند دنیا میں موجود غیر نجات یافتہ لوگوں کو بابل کے ساتھ باندھتا ہے۔
یرمیاہ 51 باب 49 آیت:
’’جس طرح بابل میں بنی اسرائیل قتل ہوئے اُس طرح بابل میں تمام ملک کے لوگ قتل ہوں گے۔‘‘
اس لیے بابل کا گرنا دنیا کے گرنے کا ہم معنیٰ ہے۔ ظاہر ہے٬ ایک دفعہ بابل گر گیا تو یہ دوبارہ نہیں کھڑا ہو سکتا۔ تقسیم سے گھر گرتا ہے۔ تقسیم بادشاھت کو گرا دیتی ہے۔ شیطان کی اس دنیا کی بادشاھت گر گئی ہے۔ اور باہر دنیا میں ہر جگہ اس کا ثبوت دیکھا جا سکتا ہے٬ ہمارے اردگرد تقسیم کے ذریعے سے۔
وہ نوشتہ جو دیوار پر لکھا: مملکت منقسم ہوئی
بڑے ہی دلچسپ انداز میں٬ خدا بائبل میں بیان کرتا ہے کہ اُس رات بابل کا بادشاہ (شیطان کی ایک قسم) قتل کیا جاتا ہے اور مملکت گر جاتی ہے۔ اُس وقت بادشاہ بیلشصنر کچھ غیبی لکھائی دیوار پر دیکھتا ہے٬ جو اسے پریشان کرتا ہے٬ یہاں تک کہ اس کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں اور آپس میں بجنے لگتی ہیں۔ آخرکار خدا کے معتقد آدمی دانی ایل کو بلایا جاتا ہے کہ دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کی تشریح کرے۔
دانی ایل 5 باب 25 -28 آیات:
’’اور وہ نوشتہ یہ ہے مِنے مِنے تقیل و فرسین اور اس کے معنیٰ یہ ہیں مِنے یعنی خدا نے تیری مملکت کا حساب کیا اور اُسے تمام کر ڈالا تقیل یعنی تو ترازو میں تولا گیا اور کم نکلا فریس یعنی تیری مملکت منقسم ہوئی اور مادیوں اور فارسیوں کو دی گئی۔‘‘
دانی ایل 5 باب 30-31 آیات:
’’اُسی رات کو بیلشصنر کسدیوں کا بادشاہ قتل ہوا۔ اور دارا مادی نے باسٹھ برس کی عمر میں اُس کی سلطنت حاصل کی۔‘‘
ایک رات میں شاہ بابل اپنے اختتام کو پہنچا اور اُس کی سلطنت تقسیم ہوگئی تھی۔ اُسی رات مادیوں اور فارسیوں کے بادشاہ نے بابل پر فتح پائی۔ اس لحاظ سے بائبل کی تصویر ڈ ائرس (جو خورس کے نام سے جانی جاتی ہے) مسیح کے رات میں چور گی مانند آنے کی ایک تصویر ہے۔ ہم مختلف ڈ ائرس (خورس) کو جانتے ہیں کہ مسیح کی ایک قسم ہیں جیسا کہ یسعیاہ کی کتاب میں لکھا ہے۔
یسعیاہ 44 باب 28 آیت:
’’جو خورس کے حق میں کہتا ہوں کہ وہ میرا چرواہا ہے اور میری مرضی بلکل پوری کرے گا۔‘‘
خورس (ڈ ائرس) خدا کا چرواہا کہلاتا ہے۔ اور
یسعیاہ 45 باب 1 آیت:
’’خداوند اپنے ممسوح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے:‘‘
’’وہ خدا کا ممسوح بھی کہلاتا ہے۔ اسی لفظ ممسوح کا ترجمہ بھی دانی ایل کی کتاب میں مسیح کے طور پر کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خورس مسیح کی تصویر ہے جو کہ شیطان اور اُس کی دنیا کی عدالت کرنے کیلئے رات میں چورکی مانند عدالت کے دن میں آتا ہے۔‘‘
بابل کو فتح کرنے کے بعد خورس اسے بڑے ہی عمدہ طریقے سے تقسیم کرتا ہے٬ خداوند یسوع ایک دفعہ اپنے آپ کو ’’تقسیم کرنے والا‘‘ بھی ظاہر کرتا ہے٬ جیسا کہ اُس نے ایک آدمی کو جواب دیا جو چاہتا تھا کہ میراث کے معاملے پر وہ اپنے بھائی کے ساتھ تنازع کو حل کرے۔
لوقا 12 باب 13- 14 آیات:
’’پھر بھیڑ میں سے ایک نے اُس سے کہا اے اُستاد! میرے بھائی سے کہیں کہ میراث کا میرا حصہ مجھے دے۔ اُس نے اُس سے کہا میاں! کس نے مجھے تمہارا منصف یا بانٹنے والا مقرر کیا ہے۔‘‘
یسوع کے اس بیان کے بارے میں کیا دلچسپ ہے٬ کیا ایسا ہے کہ اُس نے منصف اور تقسیم کرنے والے کو ایک ساتھ جوڑ دیا۔ ہمیں بائبل سے پتا چلتا ہے کہ مسیح اس دنیا کا منصف ہے٬ اور اب ہم یہ بھی سیکھ رہے ہیں کہ وہ شیطان کی بادشاہت اور اُس کی دنیا کا تقسیم کرنے والا بھی ہے۔
سوال: کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یسوع مسیح اس وقت دنیا پر حکومت کر رہے ہیں؟
جواب: یہ صحیح ہے بائبل یہ بیان کر رہی ہے کہ موجودہ وقت میں عدالت کے دن میں یسوع مسیح اس دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔
مکاشفہ 11 باب 15 آیت:
’’اور جب ساتویں فرشتہ نے نرسنگا پھونکا تو آسمان پر بڑی آوازیں اس مضمون کی پیدا ہوئیں کہ دنیا کی بادشاہت ہمارے خداوند اور اُس کے مسیح کی ہو گئی اور وہ ابد لاآباد بادشاہی کرے گا۔‘‘
مکاشفہ 19 باب 15 آیت:
’’اور قوموں کو مارنے کیلئے اُس کے مُنہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے اور وہ لوہے کے عصا سے اُن پر حکومت کرے گا اور قادر مطلق خدا کے سخت غضب کی مے کے حوض میں انگور روندے گا۔‘‘
سوال: اگر یسوع دنیا کی حکمرانی کر رہے ہیں تو ہر ایک کیلئے چیزیں بہترین کیوں نہیں ہو جاتی بجائے اس کے کہ جیسے اب بُری ہیں؟
جواب: یسوع دنیا کی بھلائی کرنے کیلئے حکومت نہیں کر رہا وہ غیر نجات یافتہ لوگوں کی بھلائی کیلئے حکومت نہیں کر رہا٬ بائبل کہتی ہے کہ وہ لوہے کے عصا کے ساتھ حکومت کر رہا ہے۔ وہ بھلا منصف ہے جو کہ انسانوں کو اُس کے پاک شریعت٬ بائبل٬ کو رد کرنے کی سزا دے رہا ہے۔ سزا دنیا کے گناہوں کو ظاہر کرتی ہے جو عوامی ذلت کا نتیجہ ہے دوسرے لفظوں میں یسوع دنیا کے اداروں کے تمام پہلوں پر تصحیک اور تمسخہ لانے کیلئے فعال طریقے سے کام کر رہا ہے۔
یسعیاہ 47 باب 1 آیت:
’’اے کنواری دختر بابل اُتر آ اے کسدیوں کی دختر! تو بے تخت زمین پر بیٹھ۔ اور خاک پر بیٹھ٬ کیوں کہ اب تو نرم اندام اور نازنین نہ کہلائے گی۔‘‘
یسعیاہ 47 باب 3 آیت:
’’تیرا بدن بے پردہ کیا جائے گا بلکہ تیرا ستر بھی دیکھا جائے گا۔ میں بدلہ لوں گا اور کسی پر شفقت نہ کروں گا۔‘‘
جن کو مسیح نے نجات بخشی ہے اُن میں پھر کبھی گناہ نہ پایا جائے گا اور ہمیشہ تک وہ اس میں قائم رہیں گے۔
متی 24 باب 13 آیت:
’’مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔‘‘
غیر نجات یافتہ لوگ زمیں کیلئے ناموافق ہیں۔ خدا کے چُنے ہوئے بچے ہی عدالتی طریقے کو (روحانی آگ) برداشت کر پائیں گے٬ جب تک وہ پورا نہ ہو جائے اور پھر آخرکار وہ حیرت انگیز بہشت اور نئی زمیں جیسا کہ خدا نے وعدہ فرمایا تھا میں داخل ہوں گے۔
زکریاہ 13 باب 8-9 آیات:
’’اور خداوند فرماتا ہے سارے ملک میں دو تہائی قتل کیئے جائیں گے اور مریں گے لیکن ایک تہائی بچ رہیں گے اور میں اس تہائی کو آگ میں ڈ ال کر چاندی کی طرح صاف کروں گا اور سونے کی طرح تاؤ ں گا۔ وہ مجھ سے دُعا کریں گے اور میں اُن کی سنو گا۔ میں کہوں گا یہ میرے لوگ ہیں اور وہ کہیں گے خداوند ہی ہمارا خدا ہے۔‘‘
اس طریقے سے اسکو جاننا کوئی بہت زیادہ خوش گوار بات نہیں ہے پر آخر میں خدا کے چُنے ہوئے لوگ ہمیشہ کیلئے خدا کی خوشی میں شامل ہو جائیں گے۔
متی 25 باب 23 آیت:
’’اُس کے مالک نے اُس سے کہا اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش! تو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔ میں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤ ں گا۔ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو۔‘‘
مزید معلومات کیلئے رابطہ کریں:
HYPERLINK "http://WWW.ebiblefellowship.org" WWW.ebiblefellowship.org
HYPERLINK "http://www.ebible2.com" www.ebible2.com
ہمارے فیس بک صفحے کو دیکھیں
www.facebook.com/ebiblefellowship
یوٹیوب چینل کا بھی وزٹ کریں
www.youtube.com/ebiblefellowship1
آپ اپنا پیغام٬ سوال اور رائے لکھ سکتے ہیں
info@ebiblefellowship.org
يا همیں اس پتہ پر لکھیں
E Bible Fellowship, P.O. Box 1393 Sharon Hill, PA 19079 USA
PAGE
PAGE 11
مزید اور نجات نہیں خدا نے 21 مئی 2011 کو لوگوں کو نجات دینا بند کر دیا ہے
عدالت کے دن میں رہنا سلسلہ وار مرحلہ نمبر ٹو اے
اپنے چُنے ہوں میں سے آخری کو نجات دینے پر 21 مئی 2011 کو خدا نے دنیا کے غیر نجات یافتہ لوگوں کیلئے نجات کا امکان ختم کر دیا اور آسمان کے دروازے بند کر دیئے۔ اس نقطے سے آگے دنیا میں کہیں بھی ایک شخص نے نجات حاصل نہیں کی۔ ایک دفعہ جب خدا نے آسمان کے دروازے بند کردیئے (روحانی دروازہ جو کسی انسان نے کبھی نہیں دیکھا اُس وقت بھی جب وہ کھلا تھا: نہ ہی کبھی کوئی دیکھے گا جب ایک دفعہ بند ہوگیا) ہر انسان کی روحانی حالت٬ مقرر٬ مستحکم قائم ہوگئی تھی۔ نیچے دی گئی آئتوں سے نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ:
مکاشفہ 22 باب 10-11 آیات:
’’پھر اُس نے مجھ سے کہا اُس نے مجھ سے کہا اس کتاب کی نبوت کی باتوں کو پوشیدہ نہ رکھ کیونکہ وقت نزدیک ہے جو بُرائی کرتا ہے وہ برائی ہی کرتا ہے اور جو نجس ہے وہ نجس ہی ہوتا جائے اور جو راست باز ہے وہ راست بازی ہی کرتا جائے اور جو پاک ہے وہ پاک ہی ہوتا جائے‘‘
پھر دوبارہ کبھی کسی گنہگار کو روحانی تاریکی سے نہیں نکالا جائے گا اور خدا کی بادشاہت کی روشنی میں نہیں ڈ الا جائے گا۔ ہزاروں سال انجیل کو دنیا میں بھیج کر کھوئے ہوئے گنہگاروں کو ڈ ھونڈ نے کا خدا کا منصوبہ پورا ہو چکا ہے۔ عدالت کا دنیا پر آنے کا وقت ہو چکا تھا۔ اور عدالت یہ تھی کے دنیا میں اُنسانوں کو مزید اور نجات نہیں بخشی جائے گی۔ ساری عدالت کے دوران (جو کے طویل عرصہ وقت ہے٬ 21 مئی 2011 کو شروع ہوا٬ اور اور زیادہ تر بائبل کے ثبوت کے مطابق میرا 2033 کا عکس کیا ہوا نتیجہ) غیر نجات یافتہ غیر نجات یافتہ رہیں گے اور نجات یافتہ نجات یافتہ رہیں گے۔ کسی کی بھی روحانی حالت تبدیل نہ ہو سکے گی۔
سوال: آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے 21 مئی 2011 سے نجات دینا بند کر دیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک دنیا چل رہی ہے خدا لوگوں کو نجات دے گا؟
جواب: اس کو ہمارے اچھی طرح سے سمجھنے کیلئے خدا نے 21 مئی 2011 کو آسمان کا دروازہ بند کر دیا تھا٬ ہمیں خدا کے نجات کے منصوبے کو مکمل سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بائبل کے مطابق ہر انسان خدا کے سامنے مجرم ہے اور اُس کے سامنے اپنے گناہوں کی سزا کے طور پر موت کا حقدار ہے یا وہ خدا سے نجات لینے کی وجہ بن سکے۔ بہرحال٬ خدا نے مہربانی کر کے فیصلہ کیا تھا انسان ذات کے ایک حصے کو نجات دینے کیلئے (سارے لوگوں میں سے باقی ماندہ کو)جو اُس کے چُنے ہوئے تھے اُس کی اپنی خوشی کے نتیجے میں۔ ان لوگوں کے پیدا ہونے سے پہلے خدا نے انہیں چُن لیا تھا٬ نجات حاصل کرنے کیلئے۔ خدا کے چن لینے کا منصوبہ دنیا کی ساری تاریخ میں چلتا رہا۔ اور آخرکار یہ تاریخ 21 مئی 2011 کو مکمل ہوا۔
خدا خودمختیار ہے جس کو چاہے وہ نجات دیتا ہے
جن کو خدا نے چُننے کا فیصلہ کیا تھا اس حوالے سے بائبل خدا کی مکمل خودمختیاری کو ظاہر کرتی ہے۔
افیسوں 1 باب 4-5 آیات:
’’چنانچہ اُس نے ہم کو بنادی عالم سے پیشتر اُس میں چن لیا تاکہ ہم اُس کے نزدیک محبت میں پاک اور بے عیب ہوں اور اُس نے اپنی مرضی کے نیک ارادہ کے موافق ہمیں اپنے لیئے پیشتر سے مکمل کیا کہ یسوع کے وسیلہ سے اُس کے لے پاک بیٹے ہوں‘‘
بائبل بھی ان ’’چُنے‘‘ ہوئے لوگوں کا خُدا کے ’’چُنے‘‘ ہوئے کا حوالہ دیتی ہے۔
پطرس 1-2 آیات:
’’اور خدا باپ کے علم سابق کے موافق ۔۔۔۔۔۔ ہم پڑھتے ہیں کہ چنے ہوئے لوگوں کے نام خدا کے کتاب میں درج کئے ہیں‘‘
مکاشفہ 13 باب 8 آیت:
’’اور زمین کے وہ سب رہنے والے جن کے نام اُس ترہ کی کتاب حیات میں لکھے نہیں گئے جو بنادی عالم کے وقت سے زبح ہوا ہے اُس حیوان کی پرستش کریں گے‘‘
بیشک٬ یہاں پر کوئی چُنے ہوں کے ناموں کی کتاب نہیں لکھی گئی٬ یہ ہمیں سکھانے کیلئے بات کہی گئی ہے کہ خدا واحد وہ ہستی ہے بیشتر ہی جیسے اُس نے نجات دینی تھی چُن لیا٬ انسانیت کی ہر قوم سے۔ اور یہ چننے کا عمل رومیوں کی کتاب میں پھر دیکھنے کو ملتا ہے۔
رومیوں 9 باب 11-13 آیات:
’’اور ابھی تک نہ تو لڑکے پیدا ہوئے تھے اور نہ اُنہوں نے نیکی یا بدی کی تھی کہ اُس سے کہا گیا کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا تاکہ خدا کا ارادہ جو برگزیدگی پر موقوف ہے اعمال پر مبنی نہ ٹھہرے بلکہ بُلانے والے پر چنانچہ لکھا ہے کہ میں نے یعقوب سے تو محبت کی مگر عیسو سے نفرت‘‘
اس سے پہلے کہ جَڑا لڑکوں میں سے کوئی نیکی یا بدی کا کام کرتا خدا یعقوب سے محبت اور عیسو سے نفرت ظاہر کرتا ہے٬ یعقوب کے گناہ معاف کرنے کیلئے عیسو کے گناہ معاف نہ کرنے کیلئے۔
خداوند کا اِن دو لڑکوں کے بارے میں بیان دراصل ہمیں ایک زبردست مثال دیتا ہے کہ خدا کی نجات کا منصوبہ کس طرح سے کام کرتا ہے۔ جب یعقوب پیدا بھی نہ ہوا تھا چُنا گیا (عیسو نہیں چُنا) گیا یہ بتاتا ہے کہ خدا کے اچھے کام اور انان کے بُرائی کے کاموں کا کوئی تعلق نہیں ہے اور خدا کے فضل کو پانے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیئے بائبل بتاتی ہے کہ خدا اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے خود چُنتا ہے۔ خداوند جانتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ کسی ایک کو پیار کرنا اور دوسرے کو نفرت کرنا اس طرح سے چُننا درست نہیں ہے۔ ایسی نسبتی باتوں کے جواب پر تھوڑا آگے رومیوں 9 باب میں لکھا ہے۔ رومیوں 9 باب 14-15 آیات:
’’بس ہم کیا کہیں؟ کیا خدا کے ہاں بے انصافی ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ وہ موسیٰ سے کہتا ہے٬ کہ جس پر رحم کرنا منظور ہے اُس پر رحم کروں گا اور جس پر ترس کھانا منظور ہے اُس پر ترس کھاؤ ں گا۔‘‘
بائبل کی چُننے کی تعلیم خدا کے بااختیار بادشاہ ہونے کو ظاہر کرتی ہے اس معاملہ میں کہ جس کو وہ چاہے نجات دیتا ہے۔ خدا اپنے کسی بھی چُنے ہوئے کیلئے معذرت پیش نہیں کرتا۔ بہرحال٬ اگر ہر انسان یہ سمجھ کر اس کو اس کا اجر ملے تو کوئی بھی نجات حاصل نہ کر سکے٬ ہم سب خدا کے غضب سے برباد ہوجائیں۔
اس زمین پر زندگی کے وقت کے عرصے کو جو خدا نے زمین پر وجود میں آنے کیلئے انسانی تار یخ میں دیا صحیح طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اُس کا ایک ہی مقصد تھا نجات کے منصوبے پر کام کرنا (چُنے ہوں کے لیے) اور اُس عدالت کا منصوبہ (سب غیر نجات یافتہ کیلئے)۔ وہ وقت کا عرصہ جو خدا نے انسانوں کو نجات حاصل کرنے کیلئے دیا تھا وہ 21 مئی 2011 کے بہت قریب آ گیا تھا۔ اس نقطہ سے اس عرصہ میں جو خداوند نے اپنے چُنے ہوئے میں سے ہر ایک کو ڈ ھونڈ لیا تھا۔ اُن سب کی جن کی تقدیر خدا نے نجات حاصل کرنے کیلئے لکھی تھی شروع ہوگئی۔ 21 مئی 2011 سے لیکر ہم اس دنیا پر خدا کی عدالت کے عرصے میں داخل ہو چکے ہیں جو اس کے خلاف ہمارے گناہوں کے سبب آئی تھی۔ ہم سب موجودہ طور پر اس عدالت کے دن میں جی رہے ہیں۔
خدا اختیار کا تعلق ظاہر کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے
خدا نے اپنے نجات دینے کے کام کو اُس وقت میں مکمل کیا جو اُس نے بائبل ’’نجات کے دن کے طور پر‘‘ ظاہر کیا تھا۔ ایک دفعہ جب یہ بڑا عرصے والا ’’روحانی دن‘‘ اختتام پریز ہوا٬ تو نجات بھی ختم ہوگئی۔
2 کرنتھیوں 6 باب 2 آیت:
’’(کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ میں نے قبولیت کے وقت تیری سُن لی اور نجات کے دن تیری مدد کی دیکھو اب قبولیت کا وقت ہے۔ دیکھو یہ نجات کا دن ہے)‘‘
قبولیت کا وقت٬ نجات کا دن کے بارے میں یسوع نے انجیل میں بھی بات کی ہے۔
یوحنا 9 باب 4 آیت:
’’جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دن ہی دن کو کرنا ضرور ہے۔ اور وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا‘‘
مسیح اُن کاموں کا حوالہ دے رہا ہے جو نجات کے کام باپ نے اُس کو کرنے کو دیئے۔
یوحنا 6 باب 29 آیت:
’’یسوع نے جواب میں اُس سے کہا خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاؤ ‘‘
بیشک ہمیں اس نصیحت کو بلکل نہیں بھولنا چاہیے جو یوحنا 9 باب 4 آیت میں دی گئی۔ کہ وہ دن ختم ہو جائے گا جب یسوع نے (نجات) کا کام کر لیا تھا وہ رات میں جو آنے والی ہے اُس میں نہیں کیا جا سکے گا۔ اس خاص روحانی تاریکی کے وقت میں جو جو بڑی مصیبت کا وقت ہے خداوند یسوع مسیح گہنگاروں کو بچانے کا کام نہیں کرے گا۔ انجیل اور نجات کی روشنی کا تعلق اس پوری دنیا سے ختم ہو گیا ہے۔
متی 24 باب 29 آیت:
’’اور فوراََ اُن دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی۔‘‘
21 مئی 2011 کے اختتام ہو گیا۔ (بڑی مصیبت کے وقت اور بعد کی بارش سے) اور روحانی تاریکی دنیا پر چھا چکی ہے۔
غضب کا دن آنے سے پہلے خداوند کی تلاش
یہ اُس وقت کے عرصے میں ہوا تھا جو ’’نجات کا دن‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس میں خدا گنہگاروں کا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ وہ خدا کے پاس آئیں اور رحم کی اپیل کریں اس امید سے کہ وہ بھی شاید چُنے ہوئے لوگوں میں ایک ہوں۔ نیچے دی گئی عبارت اسی قسم کی حوصلہ بڑھانے والی ہے۔
صفنیاہ 2 باب 2-3 آیات:
’’اس سے پہلے کہ تقدیر الہیٰ ظاہر ہو اور وہ دن بھُس کی مانند جاتا رہے اور خداوند کا قہر شدید تم پر نازل ہو اور اُس کے غضب کا دن تم پر آ پہنچے اے مُلک کے سب حلیم لوگو جو خداوند کے احکام پر چلتے ہو اُس کے طالب ہو! راستبازی کو ڈ ھونڈ و٬ فروتنی کی تلاش کرو۔ شاید خداوند کے غضب کے دن تم کو پناہ ملے‘‘
دھیان دیں٬ صنفیاہ کے 2 باب کی 2-3 آیت میں خدا انسان کو حکم دیتا ہے کہ وہ اُس کا طالب ہو٬ اس سے پہلے کہ خداوند کا قہر تم پر آ پہنچے۔‘‘ یہ خدا کے غضب نازل ہونے سے پہلے کے وقت کے دوران خدا مہربان اور گنہگاروں پر رحم کرنے والا ہے٬ (اگر وہ اُس کے چُنے ہوؤ ں میں سے ایک ہونا چاہتے ہیں) مگر اس میں مضبوط اور غلطی کے بغیر اشارہ یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ اُسکا غضب شروع ہو جاتا ہے تو پھر وہاں گنہگاروں پر کوئی رحم نہیں دکھایا جائے گا۔ خدا پوری بائبل میں بڑا ہی صاف بیان کرتا رہا ہے کہ عدالت کا دن خدا سے نجات طلب کرنے کا نہیں ہے۔ ایک دفعہ جب عدالت آگئی (جو آ چکی ہے) پھر وہاں کوئی رحم نہیں ہے۔ نہ ہی اُس کا فضل آگے بڑھے گا٬ کوئی اضافی ترس نہ کھایا جائے گا اُن پر جنہوں نے خدا کی شریعت کو توڑا۔
یعقوب 2 باب 13 آیت:
’’کیونکہ جس نے رحم نہیں کیا اُسکا انصاف بغیر رحم کے ہوگا۔ رحم انصاف پر غالب آتا ہے۔‘‘
نجات کا دن کلیسیائی دور کے مکمل 1955 سالوں میں چلتا رہا تھا۔ (33 عیسوی صدی سے 1988عیسوی تک) اس کے بعد پہلے 2300 شاموں اور صبح بڑی مصیبت کے عرصے کے بعد ایک دفعہ پھر خدا نے 1994 میں دنیا کو انجیل کی منادی شروع کی جس کو بائبل میں بعد کی بارش پکارا جاتا ہے۔ اس چھوٹے سے 17 سال کے عرصے میں خدا دنیا کی تمام قوموں میں سے ایک بڑے ہجوم کو بچانے کے ذریعے سے اپنے نجات کے منصوبے میں تبدیلی لائے گا۔ بڑی مصیبت کی شروعات میں ہی خدا نے بہت سی سچائیوں کو ظاہر کرنے کیلئے آیتوں کو کھول دیا تھا۔ اس میں معلومات کا تعلق بھی شامل تھا ’’وقت‘‘ اور ’’عدالت‘‘ کے حوالے سے٬ بائبل نے مقررہ وقت ظاہر کیا جس میں (21مئی 2011) کلیسیائی دور کے ختم ہونے کی تاریخیں اور عدالت کے دن شروع ہونے کی تاریخیں (21 مئی 2011) شامل تھیں۔ خدا 21 مئی 2011 عدالت کا دن کے پیغام کو نشر کرنے کیلئے اپنے لوگوں میں آیا٬ ساری دنیا میں خدا نے مسیح کے کفارے کو زمین پر بہت سے لوگوں میں پہنچایا۔ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ خدا نے بعد کی بارش کے چھوٹے عرصے میں بہت سے لوگوں کو بچایا پھر اُس نے یہ سب پچھلی تاریخ میں کیا۔
مکاشفہ 7 باب 9 آیت اور 13-14 آیات:
’’ان باتوں کے بعد جو میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہل زبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ جیسے کوئی شمار نہیں کر سکتا سفید جامے پہنے اور کھجوروں کی ڈ الیاں اپنے ہاتھوں میں لیئے ہوئے تخت اور برّہ کے آگے کھڑی ہے‘‘
’’اور بزرگوں میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ یہ سفید جامے پہنے ہوئے کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ میں نے اُس سے کہا کہ اےمیرے خداوند! تو ہی جانتا ہے۔ اُس نے مجھ سے کہا یہ وہی ہیں جو اُس بڑی مصیبت میں سے نکل کر آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے جامے برّہ کے خون سے دھو کر سفید کیئے ہیں‘‘
آخرکار 21 مئی 2011٬ بڑی مصیبت کا دور ختم ہو گیا اور بعد کی بارش بند ہوگئی۔ اُس وقت سے جو چُنے گئے تھے مسیح نے آزاد کر دیئے۔ خدا کے کلام نے اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرنے کا مقصد پورا کر لیا وہ سب جو دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے چُنے گئے تھے تب بچا لئے گئے تھے۔ نجات کا دن ختم ہو گیا تھا۔
خدا آسمان کا دروازہ بند کرتا ہے
یہاں پر کوئی ایسا سوال نہیں جو بائبل سکھاتی ہے کہ خدا عدالت کے دن میں آسمان کے دروازے بند کر دے گا۔
لوقا 13 باب 24 سے 25 اور 28 آیات:
’’اُس نے اُن سے کہا جان فشانی کرو کہ تنگ دروازے سے داخل ہو٬ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہتیرے داخل ہونے کی کوشش کریں گے اور نہ ہو سکیں گے جب گھر کا مالک اٹھ کر دروازہ بند کر چکا ہو اور تم باہر کھڑے دروازہ کھٹکھٹا کر یہ کہنا شروع کرو کہ اے خداوند! ہمارے لیئے کھول دے اور وہ جواب دے کہ میں تم کو نہیں جانتا کہ کہاں کے ہو‘‘
’’وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا جب تم ابرہام اور اصحاق اور یعقوب اور سب نبیوں کو خدا کی بادشاہی میں شامل اور اپنے آپ کو باہر نکالا ہوا دیکھو گے‘‘
ہم اس آیت میں دیکھتے ہیں کہ ایک دفعہ جب مالک اُٹھ کھڑا ہوگا اور دوبارہ کبھی دروازہ نہ کھولے گا۔ پھر دروازے کے باہر رونا اور دانت پیسنا اُس کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور نہ کرے گا کہ وہ دروازہ کھولے۔ اور جو اپنے آپ کو باہر نکالا ہوا دیکھیں گے اُن کو اندر آنے کی کبھی اجازت نہ ملے گی۔
مکاشفہ 22 باب 14 آیت:
’’مبارک ہیں وہ جو اپنے جامے دھوتے ہیں کیونکہ زندگی کے درخت کے پاس آنے کا اختیار پائیں گے اور اُن دروازوں سے شہر میں داخل ہوں گے‘‘
’’مگر کُتے اور جادوگر اور حرام کار اور خونی اور بت پرست اور جھوٹی بات کا ہر ایک پسند کرنے اور گھڑنے والا رہے گا۔‘‘
پھر سے یہ 21 مئی 2011 تھا٬ جب خدا نے آسمان کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ یہ وہ تب کر سکتا تھا جب مسیح خود لوگوں کو بچانا چاہے (دنیا کی ابتداء سے اُن کے گناہوں کیلئے مرکر)جو کہ اب نجات یافتہ ہیں٬ ایک دفعہ جب سارے چُنے ہوئے لوگ خدا کی بادشاہت میں محفوظ طریقے سے پہنچ گئے پھر دروازہ بند ہو گیا تھا۔ لہذا وہ اس طرح سے خدا کی بادشاہی میں محفوظ تھے جیسے نوح اور اُس کا خاندان کشتی میں محفوظ تھا جب طوفان شروع ہوا۔ پیدائش 7 باب 11٬ 13 اور 16 آیات:
’’نوح کی عمر کا چھ سواں سال تھا کہ اُس کے دوسرے مہینے کی ٹھیک سترھویں تاریخ کو بڑے سمندر کے سب سوتے پھوٹ نکلے اور آسمان کی کھڑکیاں کُھل گئیں اُسی روز نوح اور نوح کے بیٹے سم اور حام یافتہ اور نوح کی بیوی اور اُس کے بیٹوں کی تین بیویاں اور جو اندر آئے وہ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا سب جانوروں کے نرومادہ تھے۔ تب خداوند نے اُس کو باہر سے بند کر دیا‘‘
بائبل نوح کے دور کے طوفان کو اور 21 مئی 2011 کو آپس میں جوڑتی ہے٬ جو بلکل 7000 سال بعد آیا (4990 ق م+ 2011= 7001-1= 7000) جب سے 21 مئی 2011 بڑی مصیبت کے عرصے کا آخر دن تھا اور 7000 گراں قدر سال طوفان کی تاریخ سے گذر چُکے تھے اور یہ عبرانیوں کے کلینڈ ر کی تاریخ٬ دوسرے مہینے کی ٹھیک سترویں تاریخ کے نیچے آتا ہے۔ (جو کہ اس سے واضح ملتا ہے جس دن خدا نے کشتی کا دروازہ بند کر دیا اور دنیا کو برباد کرنے کیلئے طوفان لایا۔ ہم یقین کر سکتے ہیں کہ خدا نے 21 مئی 2011 پر اپنا ہاتھ رکھا ہے٬ جیسا اُس نے آسمان کا دروازہ زمین کے باقی غیر نجات یافتہ لوگوں کیلئے بند کرنے کیلئے اُس دن رکھا تھا۔
ہمیں بلکل بھی حیرت نہیں ہے کہ بہت سے آج کل خدا سے اس بات پر جھگڑتے ہیں کہ اُس نے دنیا پر آسمان کا دروازہ بند کر دیا ہے٬ یہ دراصل انسانی فطرت رکھنے کی وجہ سے ہے۔ جب بھی خدا نے حاکمانہ فیصلہ کیا ہم مان سکتے ہیں کہ قدرتی دماغ رکھنے والا انسان اُس سے اس کے بارے میں بحث کرتا ہے۔ انسان خدا کے چُننے کے منصوبے٬ کہ اُسے کسے بچانا ہے حوالے سے ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ اور اب بھی انسان اس حوالے سے ایسا ہی کر رہے ہیں جب کہ خدا بچا رہا ہے۔
آسمان کا دروازہ بند کرنے کا کام خدا نے اپنی مرضی کے مطابق کیا ہے۔ اگر خدا کچھ کھولنا ہے (جیسا کہ اُس نے بڑے مصیبت کے دور میں پچھلی دفہ بڑے پیمانے پر دروازہ کھولا تاکہ بڑے ہجوم کو بچا سکے) انسان اسے بند نہیں کر سکتا۔ بلکل ایسے جیسے اگر خدا کچھ بند کرے تو انسان اسے نہیں کھول سکتا۔
مکاشفہ 3 باب 7 آیت:
’’۔۔۔۔۔ جس کے کھولے ہوئے کو کوئی بند نہیں کرتا اور بند کئے ہوئے کو کوئی کھولتا نہیں وہ یہ فرماتا ہے۔‘‘
سچے ایمان رکھنے والے صرف مرد ہیں۔ ہم اُن میں سے ایک نہیں جو خدا کے وقت٬ عرصے اور نجات کے منصوبے کی حد بندی کر سکیں۔ نہ ہی ہم ان عرصوں اور وقتوں کو جس کا نتیجہ عدالت ہے کی حد بندی کر سکیں۔ جب یہ آسمان کے دروازے پر آتا ہے٬ خدا کا بیٹا صرف دروازہ کھولنے والا ہوتا ہے۔
زبور 84 10 آیت:
’’میں اپنے خدا کے گھر کا دربان ہونا شرارت کے خیموں میں بسنے سے زیادہ پسند کروں گا۔‘‘
بائبل یہ ظاہر کرتی ہے کہ صرف خدا واحد ہے جسے یہ اختیار ہے اور جو یہ پُر جلال فیصلہ کرنے کی قوت رکھتا ہے٬ یہ بائبل ہی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ آسمان کا دروازہ زمین کے تمام باقی غیر نجات یافتہ لوگوں کیلئے بند ہو چکا ہے۔ یہ تعلیم اُس کی طرف سے ملتی ہے جو دربانوں کو پر جلال فیصلہ سُناتا ہے نہ کہ بہچار دربان خود سے کچھ کرتے ہیں۔
خدا کا بچہ٬ اکیلا عدالت کے دن زمین پر رہے گا٬ اور وہ صرف اپنا کردار ایک دربان کے طور پر نبھائے گا٬ جیسے اُسے خدا کے کلام بائبل سے حکم ملے گا۔
یہ بائبل ہی ہے جو اشارہ دیتی اور خدا کے نجات کے منصوبے کو 21 مئی 2011 کو پکا کرتی ہے۔ یہ بائبل ہی ہے جو بیان کرتی ہے کہ اُس دن خدا خوفناک اور ہولناک عدالت لایا ہے٬ آسمان کا دروازہ بند کرنے کی عدالت٬ عدالت نے مسیح کے گنہگاروں کو نجات دینے کا کام بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی عدالت جسے انسان طبعی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا اور٬ لہذا٬ اس وقت یہ روحانی عدالت ہے۔ ایسے بڑے پکے آثار موجود ہیں کہ اب عدالت دنیا پر بلکل 22 سال مشتمل 23 سال جاری رہے گی اور 2033 میں ختم ہوگی۔
خدا آخری عدالت کے وقت میں انسان ذات کو صرف ایک اُمید کی اجازت دیتا ہے
سوال: کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں پر لوگوں کیلئے نجات کی اُمید نہیں ہے؟
جواب: دوبارہ سے٬ ہمیں بہت زیادہ خیال رکھنا ہے کہ عملی طور پر خدا اب گنہگاروں کو نہیں بچا رہا۔ اُس نے یہ کام ختم کر دیا ہے۔ یاد رکھیں یوحنا 9 باب 4 آیت بیان کرتی ہے٬ ’’وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا‘‘ مسیح کسی کو بھی نجات نہیں بخشے گا جو موجودہ حال میں غیر نجات یافتہ ہے۔ بائبل اشارہ کرتی ہے کہ ہر شخص کی روحانی حالت ہمیشہ کیلئے مستحکم ہو گئی ہے۔
لوقا 16 باب 26 آیت:
’’اور اُن سب باتوں کے سوا ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑا گڑھا واقع ہے ایسا کہ جو یہاں سے تمہارے طرف پار جانا چاہیں نہ جا سکیں گے اور نہ کوئی اُدھر سے ہمارے طرف آ سکے‘‘
سوال: لہذا آپ کہہ رہے ہیں کہ ساری اُمید جاتی رہی؟
جواب: اس وقت دنیا پر عدالت کے دوران٬ وہ اُمید جس کی بائبل اجازت دیتی ہے٬ وہ یہ اُمید ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آسمان کا دروازہ بند کرنے سے پہلے 21 مئی 2011 کو خدا نے کسی شخص کو چُن لیا ہو اگر وہ کسی کلیسیاء کا حصہ نہیں اور اُس نے خدا کا کلام بائبل سُنا ہو وہ اُمید کر سکتے کہ خدا آسمان کا دروازہ بند کنے سے پہلے اُنہیں بچائے گا۔
سوال: تب کیا ہوگا اگر کوئی شخص کلیسیاء کا حصہ ہو؟
جواب: یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے٬ خدا نے کلیسیائی دور ختم کر دیا ہے اور اپنے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کلیسیاؤ ں کو چھوڑ دیں۔ خدا کلیسیاؤ ں میں نجات کا کام پہلے سے پورے 23 سالوں کے دوران جب سے اُن پر عدالت ہے نہیں کر رہا (21 مئی 1988 سے 21 مئی 2011) اسی لیے٬ کوئی بھی جو کلیسیاء میں 21 مئی 2011 سے باقی لوگ بچے ہیں ممکن ہے نجات نہ پا سکیں٬ روحانی طور سے یہ اُن کے لیئے ہولناک ہے۔ مگر چیزیں اور زیادہ خراب ہو جائیں گی ایک دفعہ جب عدالت کلیسیاؤ ں سے نکل کر دنیا پ آجائے گی (21 مئی 2011 پر) اُس وقت میں (نجات نہ دینے) کی حالت (جوکہ کلیسیاؤ ں خاص طور یہ حالت ہے) دنیا کو شامل کرنے کیلئے پھیل جائے گی۔ دردناک طور پر٬ اس کا مطلب ہے کہ کلیسیاؤ ں میں موجود لوگوں کو نجات نہیں ملے گی جب فضل کا عرصہ ہوگا اور بعد کی بارش ہوگی اور اب٬ عدالت کے دن میں نجات نہیں مل سکتی جب سے خدا نے اپنے نجات دینے کے منصوبے کو ختم کر دیا ہے۔ جو کلیسیاؤں میں ہیں اُن کے حوالے سے بائبل صرف ایک ہی چیز کی اجازت دیتی ہے اور وہ ہے دُعا جس میں وہ خدا سے درخواست کر سکتے ہیں کہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ اُن پر سے ٹل جائے۔
متی 26 باب 39 آیت:
’’۔۔۔۔ اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہو۔‘‘
خدا ہمیں حکم دیتا ہے کہ اُس کی بھیڑیں چرائیں
سوال: یہ بڑی پریشان کر دینے والی معلومات ہے٬ اگر یہاں نجات کی کوئی امید باقی نہیں تو پھر آپ یہ معلومات لوگوں کے ساتھ کیوں بانٹ رہے ہو؟
جواب: آپ اچھا سوال پوچھ رہے ہیں٬ یہاں پر کم از کم 3 وجوہات کہ کیوں سچے ایماندار اسے جاننے اور بانٹنے کا حق رکھتے ہیں: پہلی کہ خدا ہمیں حکم دیتا ہے کہ اُس کی بھیڑیں چرائیں٬ اس میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو خدا نے بڑی مصیبت کے وقت بچائے تھے (ایک بڑا ہجوم) ابھی بھی اس عدالت کے وقت میں زمین پر رہ رہا ہے۔ جب تک ہمیں یہ پتہ نہیں کہ یہ لوگ کون ہیں٬ ہمیں یہ بائبل کی تعلیم سب کے ساتھ بانٹنی ہے۔ جو چیزیں ہم یہاں بانٹتے ہیں وہ خدا کے کلام میں سے سچی ہیں۔ اور یہ سچ کو بانٹنا ہے٬ جو کہ روحانی طور سے خدا کی بھیڑوں کو کھلانا اور چرانا ہے۔ دوسری طور پر٬ آخری چیز جو ان لوگوں میں سے بہت سوں نے سنا ہے کہ 21 مئی 2011 دنیا پر عدالت کا دن ہو سکتا ہے٬ ہم چاہتے ہیں کہ چنے ہوئے اچھی طرح سے جان لے کہ خدا دنیا کی عدالت کس طرح سے کر رہا ہے۔
تیسرے طور سے٬ خدا اپنے لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ خاموش نہ رہیں اور ان کو نشر کریں۔ خدا بابل کو دنیا کی تصویر کے طور پر استعمال کرتا ہے اپنے غضب کے نیچے اور یرمیاہ 50 میں کہتا ہے۔
یرمیاہ 50 باب 2 آیت:
’’قوموں میں اعلان کرو اور اشتہار دو اور جھنڈ ا کھڑا کرو٬ منادی کرو٬ پوشیدہ نہ رکھو کہہ دو کہ بابل لے گیا۔‘‘
مزید معلومات کیلئے رابطہ کریں:
HYPERLINK "http://WWW.ebiblefellowship.org" WWW.ebiblefellowship.org
HYPERLINK "http://www.ebible2.com" www.ebible2.com
ہمارے فیس بک صفحے کو دیکھیں
www.facebook.com/ebiblefellowship
یوٹیوب چینل کا بھی وزٹ کریں
www.youtube.com/ebiblefellowship1
آپ اپنا پیغام٬ سوال اور رائے لکھ سکتے ہیں
info@ebiblefellowship.org
يا همیں اس پتہ پر لکھیں
E Bible Fellowship, P.O. Box 1393 Sharon Hill, PA 19079 USA
SPIRITUAL JUDGMENT BEGAN MAY 21, 2011
روحانی عدالت شروع ہے 21 مئی 2011
عدالت کے دن میں دنیا ٹریکٹ سلسلہ نمبر 1
21 مئی 2011 عدالت کا دن کوکافی عوامی تشہیر ملی جسے دنیا نے کبھی دیکھا۔ اسے بل بورڈ ز پہ آ ویزاں کیا گیا٬ بسوں پر اشتہارات لگائے گئے۔ پیغام کو کاروں کے اُپر دیکھا گیا٬ بمپر پر اسٹیکر بنا کر لگائے٬ ٹی شرٹ پر٬ ادبی تحریروں میں٬ رسالوں اور خبروں میں نشر کیا گیا۔ میڈ یا پر خبروں میں انجیل کے اس انتبائی پیغام کو مشہور کیا گیا کہ یہ تاریخ عدالت کا دن ہو سکتی ہے! بیشتر دنیا اپنی سانس روکے ہوئے تھی کہ شاید یہ خدا کی آخری عدالت ہو۔
اور اب (ظاہری طور پر) کچھ نہیں ہوا۔ اور اب چیزوں کا پتہ نہیں چلا جیسا سوچا گیا تھا۔ نہ تو پوری دنیا میں زلزے آئے نہ ہی خوفناک حالات پیدا ہوئے جنکو 21 مئی کی تاریخ سے ملایا جائے۔ اس کے بجائے وہ دن آیا اور گذر گیا جیسے دوسرے عام دن۔ ظاہری طور پر کچھ بھی نہ دیکھا گیا۔ دنیا میں بہت سے لوگ سکون میں آ گئے٬ اور اس پورے خیال کا مذاق اُڑایا گیا٬ ’’دیکھو‘‘ وہ کہتے تھے٬ ’’یہ سب کچھ احمقانہ سوچ تھی۔‘‘ اور وہ اکیلئے نہیں ہیں٬ وہ جو ہیکلوں (چرچوں) میں بیٹھے تھے خوش ہو گئے ’’ہم آپ کو بتاتے تھے کہ کوئی بھی اُس دن اور گھڑی کو نہیں جانتا۔‘‘
بہرحال دنیا اور کلیسیا٬ خدا کہ اس رجحان کے بارے میں ناکام رہے ہیں کہ روحانی عدالت چل رہی ہے۔ ایسی روحانی عدالت جیسا عام طور پر کچھ بھی روحانی ہوتا ہے جو دیکھا نہیں جا سکتا۔ روحانیت کے ذریعے سے جسے انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔
یوحنا 4 باب 24 آیت:
’’خدا روح ہے: اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں۔‘‘
بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ خدا ایک روح ہے۔ مگر تب سے دنیا اُسے دیکھ نہیں سکتی٬ تب سے دنیا اسے چُھو نہیں سکتی٬ تب سے وہ اس کا پتہ نہیں لگا سکی٬ اس لحاظ سے دنیا اس کے وجود کو نہیں مانتی ۔ روحانی چیزوں کا دنیا میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ مگر بے شک خدا کا وجود ہے۔ اس حقیقت سے عناد کرنا کہ وہ قدرتی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا٬ وہ اصلیت میں موجود ہے۔ خدا کے لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بائبل روحانی کتاب ہے۔ یہ خدا کی کتاب ہے٬ اور جب سے ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ روح ہے ہمیں ’’بلکل بھی تعجب نہیں کہ بائبل روحانی سچ سے بھری ہے۔ خدا کے لوگ مانتے ہیں کہ ایمان کی آنکھوں سے ایمان رکھنے والوں کیلئے روحانی (پوشیدہ) چیزوں کو دیکھے جانے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔
عبرانیوں 11 باب 1 آیت:
’’اب ایمان اُمید کی کوئی چیزوں کا اعتماد اور ان دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔‘‘
جب سے دنیا خدا کے وجود کا انکار کرتی ہے کیونکر وہ اُسے نہیں دیکھ سکتے٬ ہمیں اُن کے اس خیال سے کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ خدا کی روحانی عدالت ان کے لیئے صرف ایک بکواس ہے۔ اور ابھی٬ بائبل پر ایمان رکھنے والے ہونے کے ناطے ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا اس کو ایک بکواس یا احمقانہ خیال مانے۔ ہماری حقیقی انجیل کو٬ ہماری حقیقی کتاب بائبل کو٬ ہمارے حقیقی نجات٬ دہندہ یسوع مسیح کو دنیا ایک احمقانہ خیال تصور کرے: خدا کے بیٹے پر٬ شدید اندھوں کی طرح شک کرے اور روحانی چیزوں کے تعلق سے انکار کرے۔ ہم روحانی معاملات میں دنیا سے کسی سمت یا ہدایت کی رہنمائی نہیں لینے چاہیے کچھ بھی ہو جائے ہمارا خدا کے بیٹے پر ایمان کوئی اہمیت نہیں رکھتا نہیں۔ خدا کے بچے ہونے کے ناطے ہمارا تعلق صرف اُس سے ہے جو کچھ ہمیں بائبل بتاتی ہے۔
چلو٬ یہ سوال پوچھتے ہیں۔ بائبل کا روحانی عدالت کے دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ ناممکن ہے؟ کیا بائبل میں کوئی اس قسم کے خیال کی مثال موجود ہے؟ ان سوالات کے جوابات دینے کیلئے ہمیں بائبل سے جوابات ڈ ھونڈ نے پڑیں گے۔ اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ اس نقطے سے تعلق رکھنے والی اچھی معلومات ہمیں ملتی ہے۔
باغِ عدن میں پہلی عدالت: ایک روحانی عدالت
چلیں اپنے ڈ ھونڈ نے کی شروعات پیدائش کی کتاب سے کرتے ہیں۔ جلد ہی آدم کی تخلیق کے بعد خدا نے ایک سخت انتباہ کی جس کا تعلق باغِ عدن میں لگے درختوں میں سے ایک کے ساتھ تھا۔
پیدائش 2 باب 16- 17 آیات:
’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دنیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تونے اُس میں سے کھایا تو مرا ‘‘
بہت سارے لوگ٬ بلکہ بہت سارے نہیں سارے لوگ بائبل سے واقف ہیں٬ اس میں کوئی شک نہیں٬ سب نے سُنا ہے کہ یہ پہلا اور آخر قانون اس نئے تخلیق کردہ انسان کو دیا گیا تھا۔ خدا نے صاف صاف انسان سے کہا کہ تجھے صرف اس خاص درخت کا پھل نہیں کھانا ہے۔ اور خدا نے یہ بھی کہا کہ جس دن تو نے یہ کھایا تو مرا۔ یہ بلکل سیدھا کہا گیا٬ ایک بُلکل واضح بیان٬ خاص طور پر اگر آپ اور میں وہاں موجود ہوتے اور یہ سیدھا بیان خدا کی طرف سے سُنتے ہم بلکل٬ صحیح طریقے سے مکمل سمجھ لیتے۔ تونے اس درخت سے کھایا۔ اور تو مرا! اور بلکل ہم سب جانتے ہیں کیا ہوا۔ ایک الم ناک دنیا کی تاریخ جس کی حقیقت میں آدم اور حوا نے خدا کی حکم عدولی کی۔ جلد ہی انہوں نے اُس درخت سے کھایا جس بارے میں خدا نے نہ کھانے کو کہا تھا۔
پیدائش 3 باب 3-6 آیات:
’’پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مرجاؤ گے تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مروگے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کیلئے اچھا اور آنکھوں کو خوش نما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کیلئے خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھایا‘‘
آدم اور حوا نے خدا کے دیئے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی٬ انہوں نے ممنوع درخت کا پھل کھایا۔ اور وہ اُس دن اُسی وقت نہیں مرے۔ اگر آپ پیدائش کے 3 باب میں ملنے والے پورے تاریخی بیان کو پڑھیں٬ آپ نہیں دیکھیں گے کہ آدم اور حوا اُس درخت کا پھل کھانے کے بعد ادھر اُدھر گر رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ حقیقت کے طور پر٬ بائبل میں درج ہے کہ حوا بچوں کو جنم دیتی ہے جن میں سے ایک قتل کیا گیا تھا (ہابل) اور پھر اور بچوں کو جنم دیتی ہے: تب کچھ اس ممنوع درخت کے پھل کھانے کے بعد ہوا٬ بائبل میں یہ بھی درج ہے کہ آدم کئی سو سال تک جیتا رہا؛ آدم تب تک نہیں مرا جب تک اُس کی عمر 930 سال کی نہ ہوئی۔
پیدائش 5 باب 3-4 آیات:
’’اور آدم ایک سوتیس جب اُس کی صورت و شبیہ کا ایک بیٹا اُس کے ہاں پیدا ہوا اور اُس نے اُس کا نام سیت رکھا اور سیت کی پیدائش کے بعد آدم آٹھہ سو برس جیتا رہا اور اُس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں‘‘
مگر یہ آدم کیلئے ممکن ہو سکتا ہے کہ اُس درخت کا پھل کھانے کے بعد کئی سو سال جیتا رہا ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ خدا سے کسی طرح غلطی ہو۔ ہم ایسا سوچنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ وہ (خدا) جھوٹ بول سکتا ہے۔ نہ ہی ان چیزوں کا ہمارے پاس حقِ انتخاب ہے۔ خدا کبھی غلط نہیں ہوتا اور یہ اُس کیلئے ناممکن ہے کہ وہ جھوٹ بولے۔ پھر ہم اسکی وضاحت کس طرح سے کر سکتے ہیں؟ جب ہم روحانی سمجھ سے ایک دفعہ بائبل کو دیکھتے ہیں تو اس کا جواب ملتا ہے۔ اور یہ کہ ہمیں ممکنہ طور پر مان لینا چاہیے کہ خدا نے اُسی خاص دن پر انسانی ذات پر موت واقع کردی تھی جیسا اُس نے کہا تھا وہ کرے گا پر اُس دن جو انسان مرا وہ طبعی طور پر نہیں تھا اس کے بجائے وہ روحانی موت تھی۔
اِفسیوں 2 باب 1 آیت:
’’اور اُس نے تمہیں بھی زندہ کیا جب اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب سے مردہ تھے۔‘‘
کُلسیّوں 2 باب 13 آیت:
’’اور اُس نے تمہیں بھی جو اپنے قصوروں اور جسم کی نامختونی کے سبب مردہ تھے اُس کے ساتھ زندہ کیا اور ہمارے سب قصور معاف کیئے۔‘‘
ان آیات کے ذریعے ہم نے سیکھا ہے کہ انسان اپنے گناہ میں مرا ہے۔ بائبل ظاہر کرتی ہے انسانی ذات اپنے روح کے وجود میں مری ہے۔ گناہ میں گرنے سے پہلے انسانی ذات روح اور جسم دونوں میں زندہ تھی۔ وہ خدا کے ساتھ رفاقت میں تھا۔ ایک قریبی رشتہ انسان ذات اور خدا میں موجود تھا مگر جب ایک دفعہ انسان نے گناہ کیا تو وہ روحانی رشتہ خدا اور انسان کے درمیان سے ٹوٹ گیا۔ وہ اُسی دن اپنی روح میں مر گیا۔ اسی لیے خدا نے نجات کے دن میں لوگوں کو بچایا کیونکہ یہ ضروری تھا کہ وہ دوبارہ روح میں جنم لیں۔ نجات گناہگاروں کو اُن کی روح میں دوبارہ پیدا کرنا تھا۔ ہمارے مطالعے کا اہم نقطہ یہ ہے کہ خدا نے سادہ طریقے سے یہ کہا: ’’جس روز تونے اُس میں سے کھایا تو مرا۔‘‘ خدا نے اس کی تشریح کیئے بغیر کہا کہ انسان کیسی موت مرے گا۔ اُس نے پہلے سے یہ ظاہر نہیں کیا کہ اس کا مطلب روح میں مرنا ہے جسم کی طبعی موت نہیں۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بائبل میں جو پہلی بڑی عدالت درج ہے وہ اصل میں روحانی عدالت تھی۔ وہ روحانی تھی٬ کیونکہ کسی نے بھی نہیں دیکھا کہ آدم اور حوا اُس دن مرے۔ اصل میں٬ شیطان یہ دعویٰ کر سکتا تھا کہ وہ صحیح تھا اور اُس نے کہا٬ ’’میں نے تم سے کہا تھا تم نہیں مرو گے۔ دیکھو! تمہیں کچھ نہیں ہوا۔ تم طبعی طور پر بلکل صحیح سلامت زندہ ہو۔‘‘ اور کوئی بھی باہر سے دیکھنے والا اُس سے متفق ہو سکتا تھا۔ ہاں٬ سچ میں٬ جیسا خدا نے کہا تھا ویسا کچھ نہیں ہوا۔ اور اب یہ٬ خیال مکمل طور پر غلط ہو چکا تھا۔ کچھ ضرور ہوا تھا۔ کچھ حقیقی اور کچھ بہت ہی درد ناک ہوا تھا حالانکہ روحانی ملک میں ہوا تھا۔ خدا کا قہر اُن پر پڑا اور وہ اپنے روح کے وجود میں مر گئے۔
’’ٹھیک ہے‘‘ کچھ یوں بھی کہا جا سکتا ہے٬ ’’ہم یہ خیال بھی کر سکتے ہیں کہ خدا آدم اور حوا پر روحانی عدالت لایا تھا: مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ 21 مئی 2011 روحانی عدالت تھا۔‘‘ ہاں وہ سچ ہے٬ مگر اس وقت ہم 21 مئی 2011 کو عدالت کے دن کی شروعات ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
ابھی ہمارے سامنے یہ سوال ہے: کہ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا روحانی طریقے سے دنیا کے آخری عدالت کے دن کو ہونے کیلئے لا سکتا ہے؟ ایک دفعہ ہم اس سوال کا جواب نکال لیں پھر ہم بائبل کے اُس ثبوت پر گفتگو کریں کے جو لگاتار 21 مئی 2011 عدالت کا دن ہے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ تاہم ابھی کیلئے٬ بائبل کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہمیں روحانی عدالت کے بارے میں مزید کوئی انکشاف ہوتا ہے۔
پیالے کی مثال
بائبل اکثر خدا کے غضب کو پیالے کی مثال سے ظاہر کرتی ہے۔
زبور ٬11 6 آیت:
’’وہ شریروں پر پھندے برسائے گا۔ آگ اور گندھک اور لُو اُن کے پیالے کا حصہ ہوگا۔‘‘
اس بات پر غور کریں کہ خدا شریروں پر آگ اور گندھک کے پھندے برسانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ شاید آپ تصور کرتے ہوں کہ اصل میں حولناک عدالت کے دن میں غیر نجات یافتہ لوگوں پر آگ اور گندھک گرائی جائے گی۔ مگر پھندے؟ یہ پھنسانا کیا کوئی یہ سوچتا ہے کہ پھندے اور پنجرے پوری دنیا میں آسمان سے گرائے جائیں گے؟ بلکل بھی نہیں! خدا نے ہمیں سمجھنے میں مدد دینے کیلئے اس لفظ ’’پھندے‘‘ کو اضافی طور پر لگایا ہے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ غضب کا پیالہ دنیا تمام غیر نجات یافتہ کو روحانی طور پر دیا گیا ہے۔ یہ اصلی نہیں ہے مگر روحانی عدالت ہے۔ اسی لیئے بائبل کہتی ہے کہ آخری وقت میں ساری دنیا کو پھندے میں پھنسایا جائے گا۔
لوقا 21 باب 34-35 آیات:
’’بس خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہ بازی اور اس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائے اور وہ دن تم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے کیونکہ جتنے لوگ تمام روحی زمین پر موجود ہوں کے اُن سب پر وہ اسی طرح آ پڑے گا‘‘
21 مئی 2011 پر٬ جس طرح سے دنیا خوش ہوئی تھی اور خوشی سے چیخ اُٹھے تھے (کلیسیاء بھی ان کے ساتھ) ’’کچھ نہیں ہوا‘‘ اُس خاص وقت خدا غیر نجات یافتہ لوگوں کو زمین پر پھندے میں پھانسہ ہے (کلیسیاء کے اندر اور باہر) اور اُن کو اپنے غضب کا پیالہ پینے کو دینا شروع کیا ہے۔
دوسری روحانی عدالت: مسیح خدا کے غضب کے پیالے میں سے پیتا ہے
بائبل یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ یسوع مسیح نے اپنے لوگوں کے گناہ اپنے آپ پر لے لیئے٬ اور خدا نے اپنا غضب اُس پر ڈ الا: اور اُسے اُن کی جگہ پر سزا دی۔ یسوع مسیح انسانی ذات میں داخل ہو گیا۔ اپنا عظیم کفار ظاہر کرنے کیلئے گت سمنی کے باغ اُس نے یہ ظاہر کرنے کیلئے خدا کے غضب کا تجربہ کرنا شروع کیا۔
متی 26 باب 39-42 آیات:
’’پھر زرا آگے بڑھا اور مُنہ کے بل گر کر یوں دُعا کی کہ اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو پھر شاگردوں کے پاس آکر اُن کو سوتے پایا اور پطرس سے کہا کیا تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے جاگو اور دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔ روح تو مُستعِد ہے مگر جسم کمزور ہے پھر دوبارہ اُس نے جاکر یوں دُعا کی دُعا کی کہ اے میرے باپ! اگر یہ میرے پئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو‘‘
یسوع نے خدا کے غضب کا پیالہ پیا: پر اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا آگ کے تیر آسمان سے گرے تھے اور اُسے تباہ کر دیا؟ نہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ دراصل٬ باہر سے کسی دیکھنے والے نے یسوع کو بہت زیادہ غمگین اور دلگیر دیکھا٬ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ باہر سے خدا کے غضب بلکل بھی کوئی اشارے نہیں ملتے۔ دوسرے لفظوں میں٬ مسیح نے جو گتسمنی کے باغ میں خدا کے غضب کا جو پیالہ پیا وہ کوئی طبعی سزا نہیں تھی٬ مگر روحانی سزا تھی۔ یسوع نے اس سزا کے تجربے سے روحانی بادشاہت میں بڑا دکھ اُٹھایا۔
پھر اس کا مطلب ہے کہ٬ بائبل کی دو بڑی اہم عدالتیں مکمل طور پر روحانی تھیں: آدم اور حوا پر باغِ عدن میں عدالت٬ اور یسوع پر خدا کی عدالت گتسمنی کے باغ یہ دو عدالتیں اپنے آپ میں عدالت روحانی لحاظ سے چل رہی ہے اس خیال کو کافی حد تک ثابت کرتی ہیں٬ کم از کم٬ شاید بائبل میں یہ دو ثبوت ملنے سے خدا کے ایک سچے بچے کیلئے٬ ایک اصل ممکنہ موقع ہے کہ تحقیق کر سکے۔ بائبل اُن لوگوں کا حوالہ دیتی ہے جو بڑی ایمانداری سے تحقیق کرتے ہیں کہ جو باتیں انھیں خدا کے کلام سے سُننے کو ملتی ہیں اُن کا سچ سے کیا تعلق ہے جیسے بیریہ کے لوگ۔
اَعمال 17 باب 10-11 آیت:
’’لیکن بھائیوں نے فوراََ راتوں رات پولوس اور سیلاس کو بیریہ میں بھیج دیا۔ وہ وہاں پہنچ کر یہودیوں کے عبادت خانہ میں گئے یہ لوگ تھسلنیکے کے یہودیوں سے نیک ذات تھے کیونکہ اُنہوں نے بڑے شوق سے کلام کو قبول کیا اور روز بروز کتابِِ مقدس میں تحقیق کرتے تھے کہ آیا یہ باتیں اِسی طرح سے ہیں‘‘
خدا کے لوگ صرف ہاتھ ہلاکر بائبل کی معلومات کو جانے دینا آسانی سے نظر انداز نہیں کرتے۔ بلکہ تحقیق کرتے ہیں کہ جو باتیں وہ بائبل سے سُنتے ہیں وہ سچ ہیں یا نہیں۔
بائبل میں ایک اور بڑی عدالت درج ہے
مگر یہ دو خدا کی بڑی عدالتیں صرف نہیں ہے٬ مگر یہاں ہمارے لیئے اور عدالت بھی ہے: نئے عہد کی کلیسیاؤ ں پر خدا کی عدالت۔
1- پطرس 4 باب 17 آیت:
’’کیونکہ وہ وقت آ پہنچا ہے کہ خُدا کے گھر سے عدالت شروع ہو اور جب ہم سے شروع ہوگی تو اُن کا کیا انجام ہوگا جو خدا کی خوشخبری کو نہیں مانتے؟‘‘
خدا ہمیں اپنے کلام کے ذریعے سے ایک بڑی معلومات فراہم کرتا ہے دنیا کی کلیسیاؤ ں پر عدالت لانے کے منصوبے کی نشاندہی کرتے ہوئے۔ وہ پیالے کی شکل کو استعمال کرتا ہے اُن کی تصویر دکھانے کیلئے جو کلیسیاؤ ں میں ہیں اور جن پر اُس کا غضب پڑنا ہے۔‘‘
یرمیاہ 25 باب 15 تا 18 آیات:
’’چونکہ خداوند اسرائیل کے خدا نے مجھے فرمایا کہ غضب کی مے کا یہ پیالہ میرے ہاتھ سے لے اور اُن سب قوموں کو جن کے پاس میں تجھے بھیجتا ہوں پلا کہ وہ پئیں اور لڑکھڑائیں اور اُس تلوار کے سبب سے جو میں اُن کے درمیان چلاؤ ں گا بے حواس ہوں اس لیئے میں نے خداوند کے ہاتھ سے وہ پیالہ لیا اور اُن سب قوموں کو جن کے پاس خداوند نے مجھے بھیجا تھا بلا یا یعنی یروشیلم اور یہوداہ کے شہروں کو اور اُس کے بادشاہوں اور اُمرا کو تاکہ وہ برباد اور حیرانی اور سُسکار اور لعنت کا باعث ٹھہریں جیسے اب ہیں‘‘
خدا پہلے پیالہ یروشیلم کو دیتا ہے (کلیسیاؤ ں کی ایک تصویر) پھر باقی قوموں (دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)
یرمیاہ 25 باب 29 آیت:
’’کیونکہ دیکھ میں اس شہر پر جو میرے نام سے کہلاتا ہے آفت لانا شروع کرتا ہوں اور کیا تم صاف بے سزا چھوٹ جاؤ گے؟ تم بے سزا نہ چھوٹو گے کیونکہ میں زمین کے سب باشندوں پر تلوار کو طلب کرتا ہوں ربُّ الافواج فرماتا ہے۔‘‘
خدا کے رحم اور فضل سے٬ اُس نے ہم پر یہ ظاہر کیا ہے کہ کلیسیاؤ ں کا دور ختم ہو گیا ہے۔ 1988 سے کلیسیاؤ ں پر عدالت شروع ہے۔ نئے عہدنامے کی کلیسیاؤ ں پر اُس وقت خدا کا روح آیا تھا اور ایک دم انجیل کی روشنی دنیا کی تمام کلیسیاؤ ں سے نکال لی گئی۔ اور اب ہمیں بائبل اس نقطے سے سخت اختلاف ہے٬ نئی عہد کی کلیسیائیں اس حولناک سچ میں مسلسل پریشان ہیں۔
ان کلیسیاؤ ں کے بہت سے پادریوں٬ منادوں نے بائبل کی یہ تعلیم کے بارے میں سُن رکھا ہے کہ اُن پر عدالت چل رہی ہے٬ مگر وہ اسکو نہیں مانتے اور مکمل غفلت کرتے ہیں۔ مگر وہ اس انجیل کی بڑی تعلیم سے کیسے غفلت کر سکتے ہیں٬ خا ص طور پر اس قبر کے نقطے پر؟ وہ اس پر غفلت کر سکتے ہیں اور نہیں مان سکتے کیونکہ یہ عدالت تو روحانی بادشاہت میں ہو رہی ہے۔ اس درمیان خدا کا روح کبھی نہیں دیکھا جا سکتا اور خاص طور پر جب اُس نے ایک دفعہ اُن کو چھوڑ دیا ہو۔ وہ اندھیرا جو پوری دنیا کی کلیسیاؤ ں کو موجودہ طور پر نکلتا ہے وہ روحانی اندھیرا ہے۔ اسے قدرتی سمجھ سے اور نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ پر خدا کے لوگ ان چیزوں کا پتہ لگا سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں اپنی شناخت کی بنا پر اور روحانی نظر سے جو خدا نے انہیں دی ہے۔
دانیال 12 باب 10 آیت:
’’اور بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور صاف و براق ہوں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہ سمجھے گا٬ پر دانشور سمجھیں گے۔‘‘
خدا کے چُنے ہوئے کلیسیاؤ ں پر عدالت کی اصلیت کو سُننے گے اور سمجھیں گے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ مکمل طور پر روحانی عدالت تھی۔
خلاصہ
اب ہم نے بائبل کی تین عدالتوں کا جائزہ لے لیا ہے٬ اور ہمیں کچھ بہت ہی اہم ملا ہے۔ تینوں عدالتوں میں سے ہر ایک کو روحانی قسم کی ہونے کے لحاظ سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ اور ہم کسی جھوٹی٬ انجان اور ہا اس کے بجائے کسی پوشیدہ عدالتوں کے بارے میں بات نہیں کر رہے٬ تین بڑی عدالتیں جو بائبل میں درج ہیں۔ ہم کسی بھی اور چیز کے بارے میں کیسے گفتگو کر سکتے ہیں۔ جو باغِ عدن میں انسان ذات پر خدا کی عدالت سے زیادہ اہم ہو: یا٬ گتسمنی کے باغ میں یسوع پر خدا کی عدالت یا٬ نئے عہد کی جماعتی کلیسیاؤ ں پر بڑی مصیبت کے دور میں خدا کی عدالت؟
اس معاملے کی حقیقت کے طور پر٬ یہ ناممکن ہوگا کہ بائبل کی کسی بھی اور عدالت کو ان سے اہم کیا جائے٬ جو ہمیں واپس اپنے سوال پر لے جاتی ہیں۔ کیا بائبل روحانی عدالت کی تعلیم دیتی ہے؟ بائبل سے جانچنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں! ہاں وہ تعلیم دیتی ہے۔ بائبل حقیقت میں ہمیں سکھاتی ہے کہ خدا روحانی (جو ننگی آنکھ سے نہیں دیکھی جا سکتی) عدالت انسان ذات پر اُس کے گناہوں کی وجہ سے لاتا ہے۔ پر ہمارے لیئے پوری دنیا میں بڑا سوال یہ ہے: کیا خدا روحانی عدالت لایا تھا جو 21 مئی 2011 کو شروع ہوئی تھی؟ بائبل کا جواب ہے: ہاں٬ بائبل میں یہ کہنے کیلئے بڑے جواز موجود ہیں کہ روحانی عدالت اُس دن شروع ہوئی تھی اور آج اس موجودہ وقت تک چل رہی ہے۔ حقیقت میں٬ بائبل میں بڑے مضبوط شواہد موجود ہیں اور ہمیں اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے: یہ کیسے ہوا کے پہلے کبھی ہم نے روحانی عدالت کو نہیں مانا٬ جبکہ ممکنہ طور پر آخری عدالت کیلئے؟ بہرحال ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے٬ کہ بائبل ہمیں سکھاتی ہے کہ خدا طبعی طور پر سچ میں اس دنیا کے آخری دن کے وجود پر اس کو تباہ کردے گا۔
ہم پورے دل سے بائبل کی اس تعلیم کو مانتے ہیں۔ مگر بائبل بھی سکھاتی ہے کہ روحانی انداز سے 21 مئی 2011 کو بھی عدالت کا دن مانا جاتا ہے۔
یہ روحانی عدالت مقررہ دنوں تک چلتی رہے گی اور پھر آخر میں اس عرصے کے آخری دن پر خدا کا غضب عیاں ہوگا اور اس تخلیق کو ہر غیر نجات یافتہ کے ساتھ مکمل طور پر تباہ کردے گا۔ بائبل یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہر آج کا زندہ شخص بائبل کے ظاہر کردہ عدالت کے دن میں داخل ہوگا جس کا بائبل نے بتایا ہے۔ اس وقت ہم سب عدالت کے دن میں جی رہے ہیں۔ خوفناک طریقے سے نیچے دی گئی آیات پوری ہو رہی ہیں۔
یسمیاہ 24 باب 17 آیت:
’’اے زمین کے باشندے! خوف اور گڑھا اور دام تجھ پر مُسلط ہیں۔‘‘
بیشک یہ خوفناک سچ موجودہ عدالت کے دن کے کردار کے حوالے سے ہمیں بہت سے سوالات کے ساتھ چھوڑتا ہے۔
اوریہ بھی کہ خدا کے چُنے ہوئے لوگ کس طرح سے اس زمین پر اس وقت میں موجود ہیں اور رہ رہے ہیں۔ ہم اپنی اگلی قسط کے سلسلے میں اِن اور باقی تمام سوالات کے جوابات دیکھیں گے۔ عدالت کے دن میں رہنا۔
مذید معلومات کیلئے رابطہ کریں:
ہمارے فیس بک صفحے کو دیکھیں
www.facebook.com/ebiblefellowship
یوٹیوب چینل کا بھی وزٹ کریں
www.youtube.com/ebiblefellowship1
آپ اپنا پیغام٬ سوال اور رائے لکھ سکتے ہیں
info@ebiblefellowship.org
يا همیں اس پتہ پر لکھیں
E Bible Fellowship, P.O. Box 1393 Sharon Hill, PA 19079 USA
دوھرائی گئی روحانی عدالت 2019. 03. 10
Text Goes here
Text Goes Here
Text Goes Here
Text Goes Here
Text Goes Here
Text Goes Here
Text Goes Here
Text Goes Here
Text Goes Here
مرحبا بكم في زمالة الكتاب المقدس الإلكترونية
تم تسمية زمالة الكتاب المقدس E للأسباب التالية:
الكترونية: .نحن نؤمن أن الرب استخدم الوسائط الإلكترونية (الراديو، الإنترنت، إلخ) بطريقة هائلة لإنقاذ عدد كبير من الناس خارج كنائس وتجمعات العالم. والآن المهمة التي بين أيدينا هي أن "يرعى خرافه" حتى يتسنى لجميع أولئك الذين خلَّصهم الله أن ينالوا الإنجيل.
الكتاب المقدس: الكتاب المقدس هو سلطتنا. لا يوجد إنسان يدلي باعتراف، أو عقيدة، أو بيان عقائدي من أي نوع له أي سلطة فوق الكتاب المقدس. نحن نعيش في وقت يتم فيه تمجيد الكتاب المقدس إلى حد كبير من قبل الله. إن كلمة الله هي العليا في كل ما تعلنه.
الزمالة: نحن شركة من المؤمنين الذين يرغبون في أن تكون لهم شركة مع الله من خلال كلمته. يعلمنا الكتاب المقدس أن عصر الكنيسة قد انتهى؛ ولذلك، ليس لدينا أي انتماء أو تماهي مع أي كنيسة أو طائفة من أي نوع. شكرا لزيارتك.
شكرا لزيارتك.
1 يوحنا 1: 3 الذي رأيناه وسمعناه نخبركم به لكي يكون لكم أيضا شركة معنا. وأما شركتنا نحن فهي مع الآب ومع ابنه يسوع المسيح.